Tahajjud Namaz Ka Tarika in Urdu | تہجد کی نماز کا طریقہ

admin

تہجد-کی-نماز-کا-طریقہ

تہجد کی نماز کا طریقہ رمضان المبارک کا مہینہ اپنی رحمتوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ اللہ تعالی کی رحمتیں اور برکتیں موسلادھار بارش کی طرح برس رہی ہیں۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان بابرکت گھڑیوں سے استفادہ حاصل کرے۔ کتنی محرومی کی بات ہے کہ ہم اللہ کے اس رحمتوں بھرے مہینے میں بھی محروم رہ جائیں اور اس مغفرت کے مہینے میں بھی ہم اپنی مغفرت نہ کروا سکیں۔

رمضان المبارک کے مہینے میں ہر کوئی سحری کیلئے لازمی جاگتا ہے تو کتنا ہی اچھا ہو کہ سحری کھانے سے پہلے ہم دو چار یا جتنی بھی توفیق ہو تہجد کی نماز ادا کر لیا کریں۔
اسلام میں باقی نفلی عبادات میں تہجد کا کیا مقام ہے اور سائنس نے اس کے کیا حیران کن فوائد بتائے ہیں۔
اور رمضان المبارک کے مہینے میں وہ کون سی رات ہے جس میں عبادت کرنے کا ثواب ہزار راتوں کی عبادت کے برابر ملتا ہے؟ اور یہ رات مسلمانوں کو کیوں عطا کی گئی؟
یہ ہیں وہ قیمتی موتی جو آج اس پوسٹ میں بکھیرے جائیں گے۔

تہجد کا وقت

نمازِ تہجد کا وقت عشا کی نماز کے بعد سے طلوعِ صبحِ صادق تک ہے، حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے شب، درمیانِ شب اور آخر شب میں تہجد کی نماز پڑھی ہے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول آخرِ شب میں پڑھنے کا تھا، اور یہی افضل ہے؛ کیوں کہ جس قدر رات کا وقت گزرتا جاتا ہے اللہ تعالی کی الطاف و عنایات اور رحمت میں اسی قدر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے؛ لہذا سدسِ اخیر یعنی رات کے آخری چھٹے حصے میں تہجد کا ثواب سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

تہجد کی رکعات

اگر اس کی رکعات کی بات کریں تو احادیث مبارکہ میں دو رکعت سے لیکر بارہ رکعت تک کا ثبوت ملتا ہے؛ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اکثر آٹھ رکعات پڑھنے کا تھا؛ چنانچہ علماء نے آٹھ رکعت تہجد کو افضل قرار دیا ہے۔

تہجد کی فضیلت

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کے اندر سے باہر کا خوبصورت اور دلفریب نظارہ دکھائی دےگا اور باہر سے بھی اندر کی چیزوں کا حسن نظر آئےگا، ایک اعرابی وہاں موجود تھا اس نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ بالاخانے کن کو حاصل ہوں گے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ترجمہ: اس شخص کے لیے ہوگا جو اچھی گفتگو کرے، ضرورت مندوں کو کھانا کھلائے، ہمیشہ روزہ رکھے اور رات کو اس وقت نماز پڑھے جب لوگ سو رہے ہوں۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ! کون سی دعا زیادہ قبول ہونے والی ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ترجمہ: پچھلی راتوں کے درمیان اور فرض نمازوں کے بعد۔

یعنی دو وقت دعاؤں کی قبولیت کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے اول جب رات کا صرف تہائی حصہ باقی رہ جائے یعنی تہجد کی نماز کے وقت اور دوم فرض نمازوں کے بعد، جو لوگ تہجد کی نماز پڑھیں گے یقینی طور پر انھیں قبولیت دعا کی یہ گھڑی حاصل ہوگی۔

حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں
ترجمہ: تم قیام الیل یعنی تہجد کو لازم پکڑو اس لیے کہ وہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا شیوہ تھا، اور وہ تمھیں تمہارے رب سے قربت کا ذریعہ ہے اور گناہوں کو مٹانے والا ہے اور برائیوں سے روکنے والا ہے۔

مذکورہ حدیث میں نمازِ تہجد کی چار خصوصیات کا ذکر ہے، اول یہ کہ وہ نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے، دوم یہ کہ اس سے انسان اللہ کے قریب ہوتا ہے، سوم یہ کہ اس سے انسان کے گناہ مٹتے ہیں اور چہارم یہ کہ تہجد کے اہتمام سے انسان گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔

تہجد کے سائنسی فوائد

اگر بات کی جائے تہجد کے سائنسی فوائد کی تو سائنس کے مطابق تہجد کے وقت اٹھنا جسم میں بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ جسم میں جمع شدہ فضلات یعنی پیشاب اور پاخانہ وغیرہ کو جلدی جسم سے نکلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جو کہ بصورت دیگر جسم میں رہ کر فساد پیدا کرتے ہیں اور گردوں پر زائد بوجھ پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ آکسیجن سے بھرپور صبح کی تازہ ہوا میں سانس لینے سے سے پھیپھڑوں اور دماغ کو تقویت ملتی ہے۔

دوستو! اب بات کرتے ہیں اس رات کے بارے میں جو ثواب کے لحاظ سے ہزار راتوں پر بھاری ہے۔

لیلۃ القدر

لیلۃ القدر یا شب قدر اسلامی مہینے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائسویں اور انتیسویں) میں سے ایک رات جس کے بارے میں قرآن کریم میں سورہ قدر کے نام سے ایک سورت بھی نازل ہوئی ہے۔ اس رات میں عبادت کرنے کی بہت فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ قرآن مجید میں اس رات کی عبادت کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اس حساب سے اس رات کی عبادت 83 سال اور 4 مہینے بنتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ایک ہزار مہینے تک اللہ کے راستے میں جہاد کیا، صحابہ کو رشک آیا تو اللہ نے اس کے بدلے میں یہ رات عطا فرمائی۔

بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلی امتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت زیادہ ہوئی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کی عمریں کم ہیں اگر وہ نیک اعمال میں ان کی برابری کرنا چاہیں تو ناممکن ہے تو اس پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رنج ہوا تو اللہ نے اس کے بدلے میں یہ رات عطا فرمائی۔

لیلۃ القدر کا معنی قدر اور تعظیم والی رات ہے یعنی ان خصوصیات اور فضیلتون کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے یا پھر یہ معنی ہے کہ جو بھی اس رات بیدار ہو کر عبادت کرے گا وہ قدر و شان والا ہوگا۔ اس رات کو شرف حاصل ہوا ہے کیونکہ اس میں نزول قرآن ہوا ہے، قرآن مجید کتابوں میں عظمت و شرف والی کتاب ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یہ کتاب نازل ہوئی وہ تمام انبیا پر عظمت و شرف رکھتے ہے۔ اس کتاب کو لانے والے جبریل بھی سب فرشتوں پر عظمت و شرف رکھتے ہیں تو یہ رات لیلۃ القدر بن گئی۔

شب قدر پہچاننے کی علامات اور نشانیاں

شب قدر کی علامات میں یہ بھی ہے کہ اس صبح سورج طلوع ہو تو اس میں تمازت نہیں ہوتی۔

شب قدر معتدل نہ تو گرم اور نہ ہی سرد ہوتی ہے، اس دن صبح سورج کمزور اور سرخ طلوع ہوتا یعنی تمازت نہیں ہوتی۔ (مسند ابو داؤد طیالسی)

شب قدر روشن رات ہوتی ہے نہ تو گرم اور نہ ہی سرد ہوتی اور اس میں کوئی ستارہ نہیں پھینکا جاتا، یعنی شہاب ثاقب نہیں گرتا۔ (مسند احمد بن حنبل)

قرآن مقدس میں اس کا ذکر خاص انداز میں کیا گیا ہے۔

” بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا ٭ اور تم نے کیا جانا، کیا شب قدر؟ ٭ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ٭ اس رات میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے، ہر کام کے لیے، وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔”

اس رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں‘ جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گزری ‘اس نے تراسی برس چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا اور تراسی برس کا زمانہ کم از کم ہے کیونکہ ’’خیر من الف شھر‘‘ کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زائد اجر عطا فرمانا چاہئے گا‘ عطا فرما دے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔

لیلتہ القدر فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

“یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے. سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔”

سابقہ امتوں کا عابد وہ شخص ہوتا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا‘ لیکن اس کے مقابلے میں اللہ تعالی نے اس امت کے افراد کو یہ شبِ قدر عطا کر دی‘ جس کی عبادت اس ہزار ماہ سے بہتر قرار دی گئی۔
گویا یہ عظیم نعمت بھی سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے صدقہ میں امت کو نصیب ہوئی ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جس شخص نے شب قدر میں اجر و ثواب کی امید سے عبادت کی‘ اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر‘ عبادت و اطاعت کی تلقین کی گئی ہے‘ وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو‘ ریاکاری یا بدنیتی نہ ہو اور آئندہ عہد کرے کہ میں برائی کا ارتکاب نہیں کروں گا‘ چنانچہ اس شان کے ساتھ عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژِدئہ مغفرت بن کر آتی ہے۔

دوستو اگر آپ کو یہ پوسٹ پسند آئی ہو تو اسے شئیر کرنا مت بھولیے۔

Leave a Comment