آج ہمارا دو چیزوں کو بیان کرنا مقصد ہے ۔ پہلی ہے شوال المکرم کے مہینے میں جو چھے روزے رکھے جاتے ہیں۔ اس کی فضیلت کے بارے میں بتائیں گے کہ ان کو رکھنا کیسا ہے؟ ان کو رکھنے کا کیا حکم ہے؟ ایک مفتی ہیں جو ہمارے پڑوسی ملک کے ایک بہت بڑے دینی ادارے کے شیخ الحدیث ہیں اور بڑے اللہ والے ہیں۔ انہوں نے ماہ شوال کے چھ روزوں کےتعلق بیان کیا ہے جس میں انہوں نے اسے بدعت کہا ہے ؟ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ ان دو باتوں کو بیان کرنا مقصد ہے۔
سب سےپہلا مسئلہ یہ ہے کہ ماہ شوال کے چھے روزے رکھنا کیسا ہے۔ جمہو رعلماء کا متفقہ مسئلہ ہے.علماء کرام فرماتے ہیں ماہ شوال کے چھے روزے رکھنا مستحب ہے۔ماہ رمضان کے روزے رکھنا پھر اس کے بعد ماہ شوال کے پورے مہینے میں کبھی بھی آدمی چھے روزے رکھ لے چاہے تو لگاتار مسلسل رکھ لے۔ یہ بھی جائز ہےیا پھر اگرچاہے ایک دن چھوڑکریا دو دن چھوڑ کر الگ الگ دن میں رکھ سکتاہے لیکن صرف شوال ہی کے مہینے میں رکھنے ہیں۔ اگر کوئی بندہ شوال کے مہینے میں چھ روزے رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے یہ مستحب عمل ہے۔
مستحب اس لیے ہے کہ حضور اکرمﷺ نے حدیث میں ان کی بڑی فضیلت فرمائی ۔متعدد حدیثوں کی کتابوں کے اندریہ روایت ملتی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ماہ رمضان کے روزے رکھے اور پھر ماہ رمضان کے بعدماہ شوال میں چھ روزے رکھے۔ تو اس کاثواب ایسا ہے جیساکہ کوئی بندہ پورے سال روزے رکھے۔ یہاں حدیث میں “صیام الدھر” کالفظ آیا ہے۔ دھر کے معنی اگرچہ زمانے کے آتے ہیں۔ یعنی پوری زندگی آدمی روزہ رکھے ۔لیکن علماء فرماتے ہیں کہ یہاں دھر سے مراد ایک سال ۔ ایک سال کے روزے رکھے اور یہ مفہوم دوسر ی حدیث سے ہے۔ جس سمجھ میں آتا ہے کہ ایسا شخص جو ماہ شوال کے چھ روزے رکھے پورے سال روزےرکھنے کے برابر ثواب ملتا ہے.
تو حدیث کی بنیا د پر فرماتے ہیں یہاں دھر سے مراد پوری زندگی نہیں بلکہ یہاں دھر سےمراد ایک سال ہے ۔ تو حدیث میں آپ نے فضیلت ارشادفرمائی شوال کے چھ روزے کی ۔ جو بندہ رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے وہ ایسا ہے جیسا کہ کوئی آدمی پورے سال کے روز رکھے۔ اور آپ نے قرآن کریم کی تلاوت فرمائی : اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ : جو بندہ ایک نیکی کرے گا۔ تو اس کو دس گنا اجر ملے گا. جس نے رمضان کے روزے رکھےتیس دن یاانتیس دن روزے رکھے تو اس کاثواب ایسا ہے کہ جیسا تیس سو دن روزے رکھنا۔ اور پھر شوال کے مہینے چھ روزے رکھے اگر چھ سے دس ضرب دیں گے تو ساٹھ بیٹھتے ہیں۔ اور تقریباً ایک سال کے اندر تین سو پچپن یاتین سو ساٹھ دن ہوا کرتے ہیں۔ اس وجہ سے علماء فرماتے ہیں جب بندہ رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کےاند ر چھ روزے رکھے تو ان کا ثواب یہ بتایا گیا ہے۔ کہ ایسا ہے جیسا کہ کوئی بندہ پوری سال روزے رکھے۔
اگر آ پ نے رمضا ن کے قضاء روزے کی نیت کی ہے۔ تو اس سے آپ کارمضان کا قضاء روزہ ہی ادا ہوگا۔ شوال کے روزے کی جو فضیلت ہے یہ اس کو حاصل نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ جس روزے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ وہ رمضان کی روزے سے علیحدہ ہے ۔ وہ مستقل نفلی روزہ ہے۔ لہذا اگر آپ نے قضا ء روزے کی نیت کی ہے تو رمضان کا قضاء ادا ہوگا۔ اگر قضا ء کو چھوڑ کر آپ نے شوال کا جو نفلی روزہ ہے اس کو رکھنے کی نیت کی ہے۔ توپھر آپ کو اس مہینے کی جو روزے کی جوفضیلت ہے وہ آپ کو حاصل ہوگی۔ قضاء روزہ ادا نہیں ہوگا۔ تو خلاصہ یہ ہے کہ ایک روزے میں دو نیتیں نہیں کرسکتے۔ یا پھر وہ رمضان کا قضاء روزہ رکھاجائےگا۔ یا تو شوال کا نفلی روزہ ہوگا۔ لہذا جو حضرات رکھنے والے ہیں کہ وہ دونوں طریقے سے کریں کہ جو رمضان کا روزہ کا قضاء ہوگئی اس کو علیحدہ رکھے ۔ جو شوال کے چھ روزے ہیں ان کو علیحدہ سے مستقل رکھیں۔ لہذا شوال کے چھ روزے علیحدہ سے مستقل رکھے اور جو قضا ء روزے ہوگئے تھے ان کو علیحدہ سے رکھیں۔ یہ مسئلہ ہے ایک ساتھ دونوں کی نیت نہیں کرسکتے ۔ قضاء روزے علیحدہ اس کے ذمے ہیں۔ جو نفلی روزے ہیں وہ الگ سے رکھنے ہیں۔