ہر انسان بنیادی طور پر ضعیف العقیدہ ہے اسی لئے وہ اللہ تعالی کی عطا کردہ خودی کو بلکل بھی پہچان نہیں پاتا ۔اپنی انہی کمزوریوں کی وجہ سے وہ بہت جلد گمراہ ہوجاتا ہے ۔اللہ تعالی سے اپنا تعلق مضبوط رکھنے والے اوہام پرستی کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی شرک کرتے ہیں ۔انسان اللہ تعالی سے تعلق جوڑنے کے لئے غیر محسوس انداز میں شرک کرتا چلا جاتا ہے ، پھراسے گمراہ کرکے دین سے دور کردیاجاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس کو اس راہ پر چلانے والا ہر عامل نیتاً ایسا کرتا ہے ۔ کوئی بھی روحانی معلم جو شریعت سے بہت دورہوگا، جب مبلغ بنتا ہے تو انسانی وہموں کو بڑھانے کا سبب بن جاتا ہے ،وہ قرآن پاک کے مطالعہ کا عادی بنانے کی بجائے انسان کو کسی اور جانب لگا دیتا ہے۔انسان کو انسان کی پرستش سے نکالنا ،اسکے سامنے سجدہ ریز ہوکر اسکو اپنا دنیاوی رب ماننا موجودہ دور میں تصوف کے نام پر رواج پاچکا ہے جسے کسی بھی مکتبہ فکر ومسلک کا عالم و فاضل ہرگز درست و جائز عمل نہیں سمجھتا ۔ انسان کو وہم پرستی اور ضعف سے بچانے کے لئے اللہ تعا؛ی نے قرآن پاک میں بارہا جگہوں پر ارشاد فرمایا ہے کہ میں ہی تمہارا خیر خواہ،نگہبان اور بہترین دوست ہوں اور ہر لمحہ تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہوں۔جس روز یقین کی یہ لافانی قوت انسان کے دل میں پختہ ہوجاتی ہے
انسان اوہام پرستی سے نکل کر وہ انسان بن جاتا ہے جو اللہ تعالی اس بندے میں دیکھنا چاہتا ہے۔پنجگانہ نماز کو پختہ و مکمل کرنے ،قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے کے علاوہ تنہائی کی حالت میں سجدے میں اللہ کی گود میں سر رکھ کرباتیں کرنا، سسکنا اورمانگنا شعار بنالیں ،پھردیکھیں اللہ تعالی آپ کو اپنا کیسے بناتا ہے۔ حالت سجدہ میں” سبحان اللہ مالک القدوس ،سبحان اللہ مالک الکفیل ،سبحان اللہ مالک الکریم” دل میں پڑھنے سے جو لذت ،سرور ،اطمینان ،اعتماد،یقین اور تحریک پیدا ہوگی،،اسکو خود آزما کر دیکھ لیں۔یقین کریں آپ پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ دنیا میں اللہ کی یاری پھر کیسے سب پر بھاری ہوتی ہے۔اپنے اعمال پر توجہ دیجئے حقوق العباد لازمی پورے کیجئے اور حقوق اللہ کا بھی خیال رکھئے۔ کیونکہ اللہ کبھی حقوق کے تلف کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا،
قیامت کے دن اللہ اپنے حقوق تو معاف فرمادے گامگر حقوق العباد یعنی اللہ کی مخلوق کے حقوق جو آپ نے ادا نہیں کئے ہوں گے ان کو معاف نہیں فرمائے گا ان پر آپ کو سزاد دی جائے گی اور آپ کی نیکیوں سے ان حقوق کو ادا کیا جائے گا ۔