دوستو اس دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا بندہ ہوگا جو چاولوں کو پسند نہ کرتاہوگا۔ اور اسکے کھانے میں چاول لازمی جزو کے طور پر شامل نہ ہوں۔ بلکہ برصغیر کے لوگوںمیں تو روایتی کھانوں میں بریانی ، پلاؤاور میٹھی ڈشز میں چاول سے بنی کھیر اور فرنی سب سے لذیذ ترین غذاؤں میں شمار کی جاتی ہے. لیکن کیا آپ کو علم ہے ؟ کہ اکثر ہمارے گھروں میں چاول جس طریقے سے پکائے جاتے ہیں۔ یا ان کو جن اوقات میں کھایا جاتا ہے وہ صحت مند ہونے کی بجائے الٹا مضر صحت ہوسکتے ہیں.
اکثر اوقات ہمارے گھروں میں پکائے گئے چاول تین تین وقت تک کھائے جاتے ہیں لیکن کیا آپ کو یہ بات معلوم بھی ہے ؟ اگر پکے ہوئے چاول کو صیحح طریقے سے سٹو ر کرکے نہ رکھا جائے توفوڈذ پوائزنگ تو ایک بہت ہی چھوٹی سی بات ہے بلکہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ سکتا ہے۔ ایک میڈیکل ریسرچ کے مطابق اکثر اوقات ہمارے گھروں میں چاول پکاتے وقت کونسی غلطی کی جاتی ہے؟ جو ان چاولوں کو مضر صحت بھی بنا سکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ چاول کھانے کے بہترین اوقات کونسے ہیں۔ ان میڈیکل ایکسپرٹ کی نظر میں چاول پکانے کے بعد انہیں محفوظ کرنے کا طریقہ کونسا بہتر ہے ؟
حالیہ ریسرچ کے مطابق سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ غلط طریقے سے چاول پکاکر اپنی اور اپنے گھر والوں کی صحت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ عام طور پر چاول ابال کر پتیلی میں پانی بھاپ بن جانے تک پکائے جاتے ہیں۔ لیکن حال ہی میںہونے والے تجربات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چاول پکانے کا یہ معروف اور پرانا طریقہ آرسینک ز ہر کے ذرات سے بچنے کےلیے ناکافی ہے۔ وہ آرسینک جوزہریلے صنعتی فضلے اور کیڑے مار ادویات کے استعمال کیوجہ سے ان چاولوں میں پایا جاتاہے۔ چاولوں میں اس کیمیکل کی موجودگی کیوجہ سے صحت کے کئی مسائل جیسا کہ دل کے امراض شوگر اور کینسر تک کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے.
عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چاولوں کو پکائے جانے کی وجہ سے آرسینک کے ذرات ختم ہوجاتے ہیں۔ میڈیکل ایکسپرٹ کی طرف سے یہ دعوٰ ی کیاگیا ہے کہ ایسا اس صورت میں ہوتا ہے جب چاولوں کو منا سب طریقے سے ساری رات کسی صاف برتن میں بھگو کر رکھا جائے ۔ کوئینز یونیورسٹی کے شعبہ بائیولوجیکل سائنسز کے پروفیسر اینٹی مرک نے چاولوں کو تین طریقے سے پکانے کا تجربہ کیا تاکہ اس بات کا پتہ چلایا جاسکےکہ ان طریقوں سے آرسینک کی موجودگی کی سطح میں کتنا فرق آتا ہے؟ پہلے طریقے میں پروفیسراینٹی چاول پکانے کے عام طریقے یعنی ایک حصہ چاول کو دو حصے پانی کے تنا سب سے استعمال کیا جس میں پانی بھا پ بن کر اڑ گیا.
اس تجرے کے بعد انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ چاولوں میں آرسینک کی بڑی مقدار ابھی بھی باقی رہ گئی تھی جبکہ اس طریقے کے مقابلے میں جب انہوں نے دوسرے طریقے سے چاولوں کو پکایا یعنی ایک حصے چاول کو پانچ حصے پانی کے ساتھ استعمال کیا اور زائد پانی کو خارج کردیا تو آرسینک کی مقدار آدھی رہ گئی اور جب تیسرے طریقے میں چاولوں کو رات بھر پانی میں بھگو کررکھ دیا ۔ آرسینک کی مقدار 80 فیصد تک کم ہوگئی ۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ چاولوں کو پکانے کا سب سے محفوظ طریقہ یہی ہے کہ انہیں رات بھر پانی میں بھگو کر رکھا جائے اور اگلے روز انہیں پکانےسے قبل اچھی طر ح سے دھو لیاجائے پھر ایک حصے چاول کو پانچ حصے پانی میں پکا یا جائے اور زائد پانی کوخارج کردیا جائے تب آپ آرسینک ز ہر کے ذرات سے بچ سکتے ہیں۔
اور اس کے مضر اثرات سے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب ایک بار چاولوں کو پکا لیا جائے، تو انہیں بار بار گرم کرکے یا فریج میں رکھ کراستعمال نہ کیا جائے۔ اکثر گھروں میں یہی پکائے گئے چاول دو دو دن تک استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن آپ کےعلم میں اگر یہ بات نہ ہو کہ چاول صیحح طریقے سے محفوظ نہ کیے جائیں تو کم ازکم فوڈز پوائزنگ کا اندیشہ ضرور رہتا ہے۔ ان ماہرین کے مطابق کچے چاولوں میں ایک مخصو ص بیکٹیریا موجود ہوتا ہے جو پکانے کے بعد ختم ہوجاتاہے ۔ لیکن پکے ہوئے چاولوں کو محفو ظ کیے بغیر کھلے چھوڑ دینےسے یہ بیکٹیر یا دوبارہ پھلنے پھولنے لگتا ہے نتیجتاً آپ کی صحت کےلیے مضرثابت ہوسکتاہے۔
ماہرین کے مطابق تمام غذائی اشیاء اپنے اندر علیحدہ افادیت رکھتی ہیں۔ انہیں مناسب مقدار اور وقت پر کھایا جائے توہمارے جسم کےلیے فائدہ مند بن جاتی ہیں۔ جبکہ ہر چیز کے کھانے کا ایک مقررہ وقت ہے۔ اگراس مناسب وقت پر اس شے کوکھایا جائے نہ صرف یہ آسانی سے ہضم ہوجاتی ہے بلکہ یہ جسم کو فائدہ بھی پہنچاتی ہے۔