سورہ محمد ؐاس سُورۃکی دوسری آیت میں چونکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کانام مذکور ہوا ہے اس لیے اس کانام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)رکھاگیا ہے اور اس کا دوسرا نام قتال بھی ہے واقعی یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام کے ساتھ جنگ اورجہاد جونہایت ا ہم موضوع ہے اس سُورت پرسایہٴ فگن ہے
جب کہ اس سُورت کی دوسری بہت سی آیات میں کفّار اور مومنین کے حالات اورصفات وخصوصیات کاتقابل کیاگیا ہے ، اسی طرح ان کے اُخروی انجام کوبیان کیاگیا ہے ،کلی طورپراس سُورت کے ذیل میں مضامین کوچند حصّوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے ۔ ایمان او ر کفُر کامسئلہ اوراس دُنیا میں اوراس جہان میں مومنین اور کفّار کے حالات کا تقابل۔دشمنوں کے ساتھ جنگ اورجہاد کے مسئلے پرواضح اور تفصیلی بحث اور جنگی قیدیوں کے متعلق حکم ۔ اس کا ایک بڑا حِصّہ منافقین کے حالات کی تشریح کرتا ہے
، جوان آیات کے نزُول کے وقت مدینہ میں تخر یبی سر گرمیوں میں مصروف تھے۔ ایک اورحِصّے میں زمین کی سیر اور گزشتہ اقوام کے انجام کے سلسلے میں تحقیق کی بات کی گئی ہے اوران کے انجام سے درسِ عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔سُورہٴ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت کی فضیلت:پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشادِ گرامی ہے : جوشخص سُورہ محمد کی تلاوت کرے گا، خدا پرحق بن جاتا ہے کہ اسے بہشت کی نہروں سے سیراب کرے ۔ کتاب ثواب الاعمال میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے بھی ایک حدیث نقل کی گئی
جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فر مایا ہے : جوشخص سُورہ ٴ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاو ت کرے ، کبھی بھی شک وشبہ اس کے دین میں داخل نہیں ہوگا اورخدا اسے کبھی دین کے فقر میں مبتلا نہیں کرے گا اوراسے ہرگز بادشا ہ کاخوف لاحق نہیں ہوگ اور آخر عمرتک شرک وکفر سے محفوظ اورامان میں ہوگا اور جب مرے گاتوخدا ایک ہزار فرشتوںحکم دے گا کہ اس کی قبرمیں جاکرنماز اداکریں اوراس نماز کاثواب اس مرنے والے کو ملے گا اور یہ ہزار فرشتے محشر تک اس کے ساتھ رہیں گے اورعرصہ محشرمیں اسے امن وامان کے مقام پر لے جاکرکھڑاکریں گے
اوروہ ہمیشہ اللہ اورمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امان میں رہے گا ۔ ظا ہرسی بات ہے کہ جولوگ ان آیات کے مندرجات کواپنی ذات پر نافذ کریں گے اور سخت ،بے رحم اور منطق دشمن کے ساتھ برسرِ پیکارہوںگے توان کے دل میں نہ تو کسی قسم کاشک وشبہ پیدا ہوگا اورنہ ہی ارادہ میں لغزش ایک توان کے دین کی بنیاد یں مستحکم ہوں گی اور دوسرے خوف ،ذّلت اور تنگ دستی کاخاتمہ ہوگا اور ساتھ ہی قیامت میں رحمت ِالہٰی کے جوار میں نعمتوں سے بہرہ ور ہوں گے ۔ ایک اورحدیث میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں : جوہمارے اورہمار ے دشمنوں کے حال کودیکھنا چا ہیے
اسے سورہٴ محمّد کی تلاوت کرناچا ہیئے کیونکہ اس کی ایک آیت ہمارے حق میں اور ایک آیت ہمارے دشمن کے بارے میں ہے ۔اس حدیث کو اہل سنت کے مفسر آلوسی نے رُوح المعانی اورسیوطی نے درمنثور میں بھی نقل کیا ہے ۔ یہ حدیث اس حقیقت کوبیان کرتی ہے کہ ایمان کاکامل نمونہ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام اور کفر ونفاق کامجسم نمونہ بنی امیّہ ہیں ․ یہ ٹھیک ہے کہ سورة میں اہل بیت علیہ السلام کے نام سے تصریح نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی نبی امیّہ کانا م لیاگیا ہے لیکن چونکہ موٴمن میں منافق گروہوں کے بارے میں اوران کی خصوصیات کے سلسلے میں بحث کی گئی ہے
،لہٰذا سب سے پہلے ان دوواضح مصداقوں کی طرف اشارہ کرتی ہے، البتہ تمام مومنین اور تمام منافقین پراس کے صادق آنے میں کوئی مانع نہیں ہے ۔سورہ محمد کی آیت نمبر دو کے بارے میں فرمایا جاتا ہے کہ اس کو پڑھ کر جب اللہ تعالیٰ سے دعا کی جاتی ہے تو دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور رزق کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور تمام مسائل و پریشانیاں دو ر ہوجاتی ہیں۔ اگر اس کو اولاد کے لئے پڑھا جائے تو اللہ پاک نیک صالح اولاد عطافرمائے گا اور اولاد کے لئے وظیفہ یہ ہے
کہ اس کی آیت نمرب دو کو گیارہ مرتبہ گیارہ دن تک پڑھ کر کسی میٹھی چیز پر دم کر کے میاں بیوی دونوں رات کو کھا لیں اور پھر رات گزاریں انشاء اللہ تعالیٰ اللہ پاک نیک صالح اور فرمانبردار اولاد عطافرمائیں گے