یا سُبُّوحُ یَاقُدُّوُ را ت کو یہ وظیفہ پڑھ کر سو جاؤ صبح اپنی آنکھوں سے دعا کو قبول ہوتے دیکھو حاجت اور مقصد پورا نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے : اس شخص پر اللہ نظرِ رحمت نہیں فرماتا جو راستوں پر پانی چھوڑدیتا ہے جس سے گزرنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےپاس ایک کوا لایا گیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ شکار تب پکڑا جاتا ہے جب وہ ذکر الٰہی سے منہ پھیرتا ہے ۔ اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ذکرِ الٰہی سے اپنی زبان کو تر رکھین اور جو شخص ذکر اللہ کرتا ہے اس کی تمام حاجات پوری ہوجاتی ہیں اور اللہ اس کی زندگی سے مصائب و مشکلات کا خاتمہ فرماتا ہے ۔آپ بھی ایک دن کے اس شاندار وظیفے پر عمل کریں اور اپنی حاجات و مناجات کو پورا ہوتے دیکھیں۔
عمل اور ضروری ہدایات:
یہ وظیفہ آپ نے بعد نمازِ عشاء کرنا ہے اور اس تسبیح کو 313 مرتبہ پڑھنا ہے ۔اور پانچ مرتبہ درودِ پاک پڑھنا ہے آخر میں اللہ پاک سے دعا مانگنی ہے اس عمل کو ایک روز کرنا ہے ۔انشاء اللہ اللہ کے حکم سے آپ اپنی دعائیں اپنی آنکھوں کے سامنے پوری ہوتے دیکھیں گے۔قرآن و حدیث میں نیک اعمال کی جانب ترغیبات سے بدیہی طورپر یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اعمال صالحہ کی وجہ سے آخرت میں کامیابی ہو جائے گی اور انسان جنت میں پہنچ جائے گا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات سے یہی بات مترشح ہوتی ہے، بلکہ ایک آیت میں تو صاف طورپر بیان کردیا گیا کہ جنت کے وارث تم اپنے اعمال ہی کی وجہ سے بنائے جاؤ گے۔
چنانچہ ارشاد فرمایا: اور یہ ہے وہ جنت جس کےتم وارث اپنے ان اعمال کی وجہ سے بنا دیئے گئے جو تم (دنیا میں) کرتے رہے لیکن ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت اعمال کی وجہ سے نہیں، بلکہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ملے گی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا کوئی بھی شخص اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوگا؟ ۔ آپﷺ نے فرمایا: ہاں کوئی بھی شخص اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوگا اور یہ بات آپﷺ نے تین مرتبہ فرمائی۔
حضرت عائشہ صدیقہ نے پھر سوال کیا: یارسول اللہ! کیا آپ بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جائیں گے؟ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر اقدس پر دست مبارک رکھ کر فرمایا: ہاں، میں بھی نہیں جاؤں گا الا یہ کہ اللہ تعالی مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے اور یہ بات بھی آپﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔آخرت میں اللہ تعالی کی عدالت لگے گی اور میزان عدل قائم کردی جائے گی، لیکن نجات عدل سے نہیں فضل سے ہوگی، اس لئے کہ ہمارے بیشتر اعمال نیت کے کسی نہ کسی کھوٹ کی وجہ سے پہلے ہی مرحلہ پر ضائع ہو جائیں گے۔ ہم جن اعمال پر بھروسہ کئے ہوئے ہوں گے، ان میں نیت کا کوئی ایسا پوشیدہ فساد نکل آئے گا، جس کی وجہ سے ہمارا ہر عمل برباد ہوتا چلا جائے گا۔