ابو سعید خردوی ؓ فرما تے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا جس کا مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی کثر ت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں مجنوں کہنے لگیں ۔ اللہ کا ذکر دل کے لیے ایسا ہے جیسے مچھلی کے لیےپا نی اور ایک جگہ آیا ہے کہ ذکر دل اور روح کے لیے روزی ہے ذکر ایسا نشہ ہے جس کا اثر نہ ختم ہونے والا ہے ایسا سکون جو باقی رہنے والا ہے
اللہ کا ذکر دلوں سے ظلمت مٹا کر خلوت پیدا کر تا ہے روح ِ قلب کو اطمینا نیت بخشتا ہے اللہ کا ذکر جب دل میں بس جا تا ہے تو پھر کوئی طاقت اس سے دور نہیں کر سکتی۔ جتنا ہم اللہ کا ذکر کر یں گے قربِ الٰہی اتنی زیادہ نصیب ہو گی جتنی ہم غفلت بر تیں گے اتنی دوری ملے گی آج ہم آپ کو ایک ایسے عمل کے بارے میں بتا ئیں گے اگر آپ اس عمل کو کر لیتے ہیں تو انشاء اللہ اس عمل کی بر کت سے اللہ تعالیٰ آپ کی ہر حاجت کو ضرور پورا فر ما ئیں گے بالخصوص یہ عمل ان لوگوں کے لیے خاص ہے جن کے ہاں اولادِ نرینہ نہیں ہے یا وہ عورت جس کے ہاں بچہ یا بچی پیدا نہیں ہو تی۔
تمام روحوں کو اللہ تعالیٰ نے با لکل مکمل پیدا فر ما یا ہے اس کی ہر تخلیق ہر قسم کی نقص سے پاک ہے۔ انسانی تخلیق اتنی جامعہ ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہے اگر انسانی جسم کی بناوٹ کے ایک ایک حصے پر غور کیا جا ئے تو انسانی تخلیق اس کی ایک شاہکار ہے اس شاہکار کے بنانے کی صفت کوباری کہا جا تا ہے ۔ امام غزالی ؒ فرما تے ہیں جب کوئی شخص کسی چیز کو بنانے کا ارادہ کر تا ہے تو اسے تین مدارج طے کر نے پڑتے ہیں پہلا درجہ اندازہ ہے یعنی کسی چیز کو ادم سے وجود میں لا نا دوسرا درجہ وجود دینا ہے اور تیسرا درجہ اس کی شکل و بیت سے پہلے پہلے درجے کے لیے حالق کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور دوسرے کے لیے باری کا اور تیسرے کے لیے مصور کا اس لیے باری کا مطلب ہے۔
تخلیقی وجود کو سنوار کر پیدا کر نا ہے یہ اسم جلالی ہے اور اس کے اعداد تین سو تیرہ ہیں اس عمل کے بارے میں بتانے سے پہلے میں یہاں ایک گزارش کر وں گا کہ ان باتوں کو بہت ہی زیادہ غور سے سنیے گا تا کہ اس وظیفے کے بارے میں جو ساری باتیں ہیں وہ آپ کو سمجھ میں آ سکیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ روزانہ فرض نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کے نام یا باری کا 80 دفعہ ورد کر یں اول آخر تین بار درودِ ابراہیمی پڑھیں۔ انشاء اللہ اس عمل کی بر کت سے اللہ پاک ان کو اولاد سے نواز ے گا۔